Tuesday, November 10, 2015

دعا ایمان کی اساس ہے

  جب انسان کسی سے مانگتا ہے تو وہ معترف  استعدادہوتا ہے ۔دعا دراصل  اعتقاد کے ذریعے یقین  کا اظہار ہے۔ اسفل     سافلین   وگمراہی تاریک مقام ہے اور دعا اجالے کی کرن ہے جو نور کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔اس ظلمت سے  رفعت کی جانب ارادہ کرنا ، نور علم اور سعی عمل کی آرزو کرنا   عقیدہ ہی تو کہلاتا ہے۔عقیدے اور  ایمان اور یقین کو دعا  کی ‍ زنجیرہی مربوط کرتی ہے ۔  انسان خسارے والی ظلمت میں ہے۔اس ظلمت میں ، اپنےاساسی اعتقاد کے باعث ،   جو نور منور  انسان کوحوصلہ و امید دیتا ہے،اس نور سے انسان کی امید بندھتی ہے۔پھر یہی امید یقین میں ڈہلتی ہے۔ اور اس کا ذاتی تجربہ اور حالات کا تغیر اسے یقین کامل (عین الیقین) تک پہنچا دینا ہے ۔ اور یہ سارا سفر دعا  ہی کے بل بوتے پر ممکن ہوتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ علم نافع کا حصول، اعمال صالح کی توفیق،  گذشتہ زندگی  میں سرزد ہونے والے بد اعمال کی معانی اور مستقبل کے خوف  کا مداوا دعا  ہی سے ممکن ہے۔

"بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے"

.
"بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے"
   اور دل سے نکلنے والی دعا دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک خالق کے روبروخوف و حزن سے امان کی التجا  اور دوسری مخلوق کی بہتری اور بھلے  کی طلب ۔ان دونوں کے مقبول ہونے کی ابتدائی شرط صدق ہے۔صدق ایسا عمل ہے  جو خالق کے ہاں مقبولیت پاتا ہے اور مخلوق کے قلوب کو بھی متاثر کرتا ہے۔ہمارے ہادی ورہبر  حضر ت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم بعثت سے قبل صادق تسلیم کیے جاتے تھے ۔ تکبراور انانیت نا پسندیدہ رویے مانےجاتے ہیں۔ اس کے برعکس عاجزی و انکساری ایسے اوصاف ہیں جو انسان کو صدق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔مخلوق جب عجز و انکسار سے اپنےخالق کے روبرو ملتجی ہوتی ہے تو اس کو دعا کہا جاتا  ہے ۔دعا مانگنا انبیاء اور صلحاء کی سنت ہے ۔قرآن پاک میں حضرت آوم   کی دعا آئی ہے " اے ہمارے رب۔ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔اور آپ نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بڑے خسارے میں رہ جائیں گے " ۔اور ہمارے ہادی ورہبر  حضر ت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا سکھائی۔" اے ہمارے رب۔ہمیں دنیا میں کامیابی نصیب فرما  اور آخرت میں بھی کامیابی سے ہمکنار فرما" ۔انبیاء کی دعاوں  کی نقل در اصل وہ گوہرحاصل کرنا ہوتا ہے ۔ جو ان برگزیدہ ہستیوں کے الفاظ  میں پنہاں ہوتا ہے۔اسی گوہر کے باعث وہی الفاظ دہرانے والے کی دعا شرف قبولیت حاصل کر لیتی ہے ۔‍ قرآن خالق کا  بندے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے تو  دعا بندے کا اپنے مالک سے ہم کلام ہونے کا نام ہے۔