Showing posts with label "بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے". Show all posts
Showing posts with label "بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے". Show all posts

Tuesday, November 10, 2015

"بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے"

.
"بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے"
   اور دل سے نکلنے والی دعا دو قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک خالق کے روبروخوف و حزن سے امان کی التجا  اور دوسری مخلوق کی بہتری اور بھلے  کی طلب ۔ان دونوں کے مقبول ہونے کی ابتدائی شرط صدق ہے۔صدق ایسا عمل ہے  جو خالق کے ہاں مقبولیت پاتا ہے اور مخلوق کے قلوب کو بھی متاثر کرتا ہے۔ہمارے ہادی ورہبر  حضر ت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم بعثت سے قبل صادق تسلیم کیے جاتے تھے ۔ تکبراور انانیت نا پسندیدہ رویے مانےجاتے ہیں۔ اس کے برعکس عاجزی و انکساری ایسے اوصاف ہیں جو انسان کو صدق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔مخلوق جب عجز و انکسار سے اپنےخالق کے روبرو ملتجی ہوتی ہے تو اس کو دعا کہا جاتا  ہے ۔دعا مانگنا انبیاء اور صلحاء کی سنت ہے ۔قرآن پاک میں حضرت آوم   کی دعا آئی ہے " اے ہمارے رب۔ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔اور آپ نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بڑے خسارے میں رہ جائیں گے " ۔اور ہمارے ہادی ورہبر  حضر ت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا سکھائی۔" اے ہمارے رب۔ہمیں دنیا میں کامیابی نصیب فرما  اور آخرت میں بھی کامیابی سے ہمکنار فرما" ۔انبیاء کی دعاوں  کی نقل در اصل وہ گوہرحاصل کرنا ہوتا ہے ۔ جو ان برگزیدہ ہستیوں کے الفاظ  میں پنہاں ہوتا ہے۔اسی گوہر کے باعث وہی الفاظ دہرانے والے کی دعا شرف قبولیت حاصل کر لیتی ہے ۔‍ قرآن خالق کا  بندے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے تو  دعا بندے کا اپنے مالک سے ہم کلام ہونے کا نام ہے۔